خلاصۂ کتاب
پوری کتاب کا خلاصہ بیان کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ چند سطروں میں پاکستان کے تمام گیارہ انتخابات کی داستان بیان کر دی جائے۔ اس کے بعد ہم ان عوامل کو سمجھنے کی کوشش کریں گے جو ووٹر کے فیصلے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور گزشتہ انتخابات میں ڈالے گئے تیس کروڑ ووٹوں کامحرک ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں انتخابات: گیارہ داستانیں اور ایک نتیجہ
ہم نے پاکستان کی انتخابی تاریخ سے یہ سیکھا ہے کہ انتخابات کے حوالے سے وطن عزیز کی کارکردگی اب تک کچھ ایسی خراب نہیں رہی۔ 1970ء سے آج تک بے قاعدگی تو ضرور ہوتی رہی ہے لیکن اوسطاً ہر چار سال بعد انتخابات ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسئلہ انتخابات کے انعقاد یا معیار کا بھی نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر چار سال بعد دہرائی جانے والی یہ مشق کوئی نتیجہ پیدا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ ہمارا نظام ایک دائرے میں گھوم رہا ہے جس میں ایک چکر مکمل کرنے کے بعد ہم وہیں آن کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز ہوا تھا۔ بالفاظِ دیگر، ایک جمہوری یا آئینی نظام کی طرف ہمارے سفر کو انتخابی عمل سے خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دلیل کے حق میں ہمارے پاس ثبوت کیا ہے؟
ہمارے موقف کا ثبوت پاکستان کے 11 قومی انتخابات کے بغور مطالعے میں پوشیدہ ہے۔ کتاب کا دوسرا حصہ گیارہ مختصر ابواب پر مشتمل ہے۔ ہر باب میں ایک الیکشن سے متعلق بنیادی حقائق فراہم کئے گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کا مختصر جائزہ لیا گیاہے۔ ہر باب کو ایک عنوان اور کئی ذیلی عنوانات دیے گئے ہیں جو انتخابی عمل، اس کے نتائج اور ملکی سیاست پر اس کے اثرات سے متعلق ہیں اور یوں اس الیکشن کی حقیقت کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر باب میں انتخابی نتائج سے متعلق ایک آسان فہم ٹیبل بھی دیا گیا ہے جو قومی اور صوبائی سطح پر ہر جماعت کا سکور بتاتا ہے۔ ایک کمپیوٹر لنک صوبوں کی ذیلی انتظامی اکائیوں مثلاً ڈویژن کی سطح پر انتخابی نتائج تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ اس کتاب میں ہم نے محققین کی سہولت کے لیے جابجا ایسے انٹرنیٹ لنکس چسپاں کر دیے ہیں۔ جو قارئین کو اس کتاب کیلئے بنائی گئی خصوصی ویب سائٹ تک رسائی دیتے ہیں۔ اس خصوصی ویب سائٹ کو عمومی معنوں میں کتاب کا ضمیمہ سمجھا جا سکتا ہے۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ معمولی تبدیلیوں کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کے تمام گیارہ انتخابات ایک جیسے سات مراحل پر مشتمل تھے۔ آپ انہیں سات اقساط پر مشتمل ایک طویل کہانی سے بھی تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اس کہانی کا پلاٹ ایسا ہے کہ ان سات اقساط کے بعد کہانی وہیں پہنچ جاتی ہے جہاں سے آغاز ہوا تھا۔ یہ پلاٹ ہمیں گیارہ انتخابات کی 48سالہ تاریخ میں کہیں بھی تبدیل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ پہلی قسط میں انتخابات کا اعلان ہوتا ہے۔ اس کے بعد انتخابی مہم چلائی جاتی ہے۔ انتخابات ہوتے ہیں اور ایک حکومت بن جاتی ہے۔ کئی رکاوٹوں کے باوجود یہ منتخب حکومت کام کرنے لگتی ہے۔ کچھ عرصہ گزرتا ہے تو حکومت کے منتخب اور غیر منتخب عناصر کے درمیان تناؤ پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہ تناؤ جب ایک خاص سطح پر پہنچتا ہے تو مدت پوری ہونے سے پہلے ہی حکومت رخصت ہو جاتی ہے۔اس کے بعد ملک کچھ عرصہ غیر یقینی کیفیت میں رہتا ہے جس کے خاتمے پر انتخابات کا دوبارہ اعلان کر دیا جاتا ہے۔ یوں چند ظاہری تبدیلیوں کے ساتھ یہ سات قسطوں پر مشتمل کہانی دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔ ہر کہانی کو باب نمبر 6سے لے کر باب 16تک اس کتاب کے ایک مختصر باب میں پڑھا جا سکتا ہے۔
کون سے عوامل ووٹرز کی رائے پر اثر انداز ہوتے ہیں؟
ہمارے جائزے کے مطابق پاکستان کے مختلف سماجی و معاشی طبقات کے ووٹ دینے کے رجحانات ایک دوسرے سے یکسر مختلف نہیں ہیں۔ تاہم پھر بھی مختلف سماجی اور اقتصادی طبقات کے ووٹنگ رجحانات میں پائے جانے والے فرق انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ووٹنگ کے رجحانات میں طبقاتی فرق ایک سست رو عمل ہے جو کئی دہائیوں میں وقوع پذیر ہوتا ہے لیکن جب ایسا ہو جائے تو یہ تبدیلی انتخابی منظر نامے میں بڑے اکھاڑ پچھاڑ کا باعث بنتی ہے۔
یہ باب بنیادی طور پر تین عوامل کی نشاندہی کرتا ہے جو ووٹر کی رائے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اول وہ خواہشات جن کے تحت ووٹر اپنے حق میں بہترین امیدوار کو منتخب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوم ووٹر کا سماجی طبقہ جو فرد کی رائے کو متاثر کرسکتا ہے۔ سوم وہ سیاسی پس منظر جس میں انتخابات منعقد کیے جا رہے ہیں۔ مجموعی طور پرایک ووٹر کی انفرادی رائے اس کی ذاتی خواہشات، سماجی عوامل اور سیاسی سیاق و سباق کے ملنے سے بنتی ہے۔
ووٹرز ایک سیاسی جماعت سے کیونکر وابستہ ہوتے ہیں ؟ ان جماعتوں کا ڈھانچہ اور گزشتہ پچاس برسوں کی کارکردگی کیا ہے؟
انفرادی رائے سے ہٹ کر مجموعی طور پر ووٹر کسی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ کیونکر منسلک ہوتے ہیں؟ بالفاظِ دیگر وہ کونسے عوامل ہیں جو انفرادی ووٹ کو سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کا باعث بنتے ہیں۔کتاب کے باب نمبر 2اور 3میں ان عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے۔باب نمبر دو میں سیاسی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے اور گزشتہ گیارہ انتخابات میں ان کی کارکردگی کو تفصیل سے درج کر دیا گیا ہے۔
تجزیے کی خاطر ہم نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے ڈھانچے کے دو طبقے اور چار مدارج متعین کیے ہیں۔ کتاب کے متن میں ان پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔
سیاسی تنظیم کا طبقہ اول انتخابی سیاست کی بنیادی اینٹ ہے۔ لیکن سیاسی فیصلوں میں اس کی حیثیت قدرے ادنیٰ اور زیریں ہے۔ اس طبقے کی ترکیب (structure) اور مزاج (character) محض سیاسی اور انتظامی نہیں بلکہ وہ برادری اور سیاسی اکائی ہونے کا ایک ملغوبہ (blend) ہے۔
سیاسی تنظیم کا طبقۂ ثانی سیاسی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے کا رسمی اور بالائی طبقہ ہے۔ یہی طبقہ اس کی باقاعدہ یا نیم باقاعدہ (semi-formal)تنظیم کی سربراہی کرتا ہے۔اس کتاب کے تجزیے کے مطابق سیاسی جماعتوں کے دونوں طبقات کی طاقت میں ایک شدید عدم توازن ہے۔ البتہ دونوں میں سے کوئی بھی اس عدم توازن کو دور کرنے کی جانب راغب نہیں، نتیجتاً دونوں کمزور ہیں۔اس کمزوری کی وجہ سے کارِ حکومت میں’’منتخب انتظامیہ‘‘کو ادنیٰ اور ’’غیر منتخب انتظامیہ‘‘ کو اعلیٰ مقام حاصل ہوتا ہے۔ گزشتہ پچاس سال میں گیارہ انتخابات کے انعقاد کے باوجود یہ صورتحال اپنی اسی کیفیت میں منجمد ہے۔
ہماری رائے میں انجماد (stagnation) کی اس کیفیت کو پگھلانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ مقامی حکومتوں کو ذیلی صوبوں کی تشکیل کےذریعے قومی اور صوبائی حکومتوں کے پہلو بہ پہلو اور بہت سے معاملات میں ان کے ہم پلہ مقتدر حیثیت دی جائے۔ جب تک ایسا نہ ہو تب تک ’’منتخب ‘‘ اور ’’غیر منتخب‘‘ کے درمیان ادنیٰ اور اعلیٰ کا یہ غیر موزوں رشتہ موجود ہ حالت میں منجمد (frozen) رہے گا۔ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ مملکت پاکستان ناتوانی کے اس منجمد ریگستان میں گمراہ رہے گی۔
باب نمبر 2اور 3میں ہم نے ایک نئی اصطلاح کو متعارف کروایا ہے۔ یہ نئی اصطلاح سیاسی جماعتوں کے شناختی گروہ سے متعلق ہے۔
سیاسی جماعتوں کے ایک گروہ یا پارٹی کلسٹر (party cluster) کی اصطلاح ایک سیاسی جماعت اور اس سے ٹوٹ کر بننے والی ذیلی جماعتوں کے گروہ کی نشاندہی کرتی ہے۔ مزید برآں ایک جیسے نظریات رکھنے والی جماعتیں بھی ایک گروہ کے زمرے میں آتی ہیں۔ جنہیں باہم خیال جماعتیں کہا جا سکتا ہے۔ اس طرز پر سیاسی جماعتوں کی درجہ بندی کا تصور متواتر انتخابات میں ووٹرز کے رویے کا تفصیلی جائزہ لینے سے متعین ہوا ہے۔
اس موضوع پر پیش کردہ معلومات اور اعدادوشمار متفرق ذرائع کے علاوہ دو بنیادی ماخذات یعنی گیلپ اینڈ گیلانی انڈیکس آف الیکٹورل ریکارڈ (Gallup and Gilani Index of Electoral Record) اور گیلپ اینڈ گیلانی سینسس آف پاکستان پالیٹیکل کلاس (Gallup and Gilani Census of Pakistan’s Political Class) سے لیے گئے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو کون سا رشتہ باہم جوڑتا ہے؟
پاکستانی تاریخ کے سارے قومی انتخابات کو مجموعی تناظر میں دیکھتے ہوئے ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا کوئی ایسی مشترکہ شناخت موجود ہے جس سے جڑ کر انفرادی ووٹرز ایک ووٹ بینک تشکیل دیتے ہیں اور نتیجتاً یہ ووٹ بینک سیاسی جماعتوں کی بنیادی اینٹ بن جاتے ہیں اور سیاسی جماعتیں ان اینٹوں کو ایک عمارت کی شکل دے دیتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سیاسی جماعتیں ان متفرق اینٹوں کو باہم جوڑنے کے لیے ایک سیمنٹ(cement) فراہم کرتی ہیں۔اس سیمنٹ کو ہم نے مشترکہ شناخت سے تعبیر کیا ہے۔
ہمارا تجزیہ بتاتا ہے کہ کسی محلے یا بستی میں پائی جانے والی بنیادی اینٹیں یا یونٹ تو برادری اورذاتی نفع نقصان کے ذریعے تشکیل پاتے ہیں، لیکن ان اینٹوں سے عمارت کی تعمیر ایک مشترکہ شناخت کے گرد ہوتی ہے جو سیاسی جماعتیں فراہم کرتی ہیں۔ یہی وہ مشترکہ شناخت ہے جو سیاسی جماعتوں کا طرۂ امتیاز بن جاتی ہے۔
کتاب کا باب نمبر 3ووٹروں اور ووٹ بینکوں کے درمیان وجۂ اشتراک بننے والے ان تصورات کو بیان کرتا ہے۔ ہم نے پانچ تصورات یا نظریات کی نشاندہی کی ہے جن میں سے تین دائمی یا مستقل حیثیت رکھتے ہیں اور دو وہ ہیں جن کا جنم مخصوص اقتصادی و سماجی بحرانوں کا مرہون منت ہے۔ دائمی سے منفرد کرنے کیلئے ہم نے ان تصورات کو ’’روایت شکن‘‘ موسوم کیا ہے۔
پاکستانی سیاست کے مستقل بالذات دائمی نظریوں میں سے اولین مسلم لیگ کا پیش کردہ قومی ریاست کا تصور ہے۔ دوم مذہبی جماعتوں کا پیش کردہ اسلامی ریاست کا تصور جبکہ سوم علاقائی جماعتوں کا پیش کردہ وفاقی ریاست کا تصور ہے۔
مندرجہ بالا تین مستقل نظریات کے علاوہ پاکستان کی انتخابی سیاست نے اب تک دو جدید یا روایت شکن شناختی نظریات کو جنم دیا ہے، ایک 1967ء میں جنم لینے والا پاکستان پیپلز پارٹی کا شناختی نظریہ اور دوسرا پاکستان تحریک انصاف کا نظریہ جو 1996ء میں منظر عام پر آیا۔ ان روایت شکن نظریات کی پیدائش کا باعث وہ سماجی و معاشی تبدیلیاں ہیں جو کئی دہائیوں کے عرصے میں رونما ہوتی ہیں۔ کتاب کے تیسرے باب میں ہم یہ وضاحت کرتے ہیں کہ ہمارے سیاسی نقشے میں ان نئے نظریات سے پیدا ہونے والے ہیجان اور اس کے اثرات کو دائمی نظریات کس طرح ایک تخلیقی انداز میں جذب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ تمام شناختیں ایک دوسرے سے باہم جڑی ہوئی ہیں اور ووٹرز ایک سے زیادہ شناختوں سے جڑے ہونے کے باوجود کسی ایک شناخت کو باقیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ جب وہ اس منتخب کردہ شناخت کی آواز کا حصہ بن جاتے ہیں تو ان کا یہ فعل اس شناخت کو ایک مستقل شناختی گروہ کی حیثیت دے دیتا ہے۔
اپنی اندرونی قوت، معاصر سیاسی پس منظر اور سب سے اہم، باہمی اتحاد قائم کرنے اور بوقت ضرورت ان سب کا ارتقاء کرنے صلاحیت کے باعث شناخت کے یہ نظریات آج تک زندہ ہیں۔ انتخابی سیاست کی وجہ سے ان کے درمیان جمہوری کھینچا تانی کی کیفیت جاری رہتی ہے جس میں یہ کئی طرح کے نشیب و فراز کا سامنا کرتے ہیں۔
ووٹوں کے حصول سے قومی اسمبلی تک کا سفر
یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ عوامی ووٹ کس طرح قومی و صوبائی سطح پر قانون ساز اداروں کی نمائندگی میں تبدیل ہوتے ہیں۔ کسی جماعت کو ملنے والے ووٹ اور اسمبلی میں اس کی نشستوں کا حساب جتنا سادہ محسوس ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اعداد و شمار کا ایک وسیع گورکھ دھندہ درکار ہےجس کو آسان بنانے کے لیے ہم نے گیلپ اینڈ گیلانی ماڈل آف الیکٹورل کیلکولس (Gallup and Gilani Model of Electoral Calculus) تشکیل دیا ہے۔ یہ ماڈل چار مختلف عوامل اور ان کے باہمی تعلق کا جائزہ لیتا ہے۔ اول کسی جماعت کے ووٹ بینک کا حجم، دوم، پاکستان کی بارہ جغرافیائی اکائیوں کی حد بندی، سوم، انتخابی مسابقت کی تین قسمیں جو ایک مخصوص انتخابی میدان میں سرکردہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلے کی کیفیت کو بیان کرتی ہیں، اور آخر میں وہ قوانین جو انتخاب کے بعد ووٹوں کے مطابق اسمبلی کی نشستیں الاٹ کرنے کے لیے تشکیل دیے گئے ہیں۔
ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے ہم ووٹرز کے رویے سے متعلق پانچ نتائج اخذ کرتے ہیں:
۱۔ انتخابات میں ووٹرز کی رائے کسی ایک سماجی، معاشی یا ذاتی پہلو کے باعث یکایک تشکیل نہیں پاتی، نہ ہی اس کا انحصار مکمل طور پر کسی ایک انتخاب کے سیاق و سباق پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عوام کی رائے ایک مسلسل عمل کا نتیجہ ہے جو ایک یا ایک سے زیادہ انتخابی مہموں کے دوران تشکیل پاتی ہے۔
۲۔ ابتداً کسی سیاسی جماعت کا انتخاب مختلف عوامل کی وجہ سے ذاتی سطح پر ہو سکتا ہے۔ تاہم، جب کوئی شہری ایک یا ایک سے زیادہ انتخابات میں کسی مخصوص جماعت کے حق میں ووٹ ڈال دیتا ہے تو یہ جماعت اس کی ذاتی شناخت کا حصہ بھی بن جاتی ہے۔ اس کے بعد جماعتی وابستگی کم و بیش مستحکم رہتی ہے۔
۳۔ ووٹر کبھی کبھار اپنا ووٹ تبدیل کر لیتے ہیں، لیکن وہ جس نئی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں وہ بھی اسی شناختی نظریے سے تعلق رکھتی ہے جس سے وہ پہلے منسلک تھے۔
۴۔ کبھی کبھار رائے دہندگان کسی ایک جماعتی گروہ(cluster) سے دوسرے میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ عموماً ملک کے سیاسی و سماجی ڈھانچے میں بنیادی قسم کی تبدیلیاں رونما ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ ہم نے پاکستان کے تمام 11 انتخابات اور ان پر اثر انداز ہونے والی ایسی تبدیلیوں کا ذکر ’’روایت شکن تبدیلیوں‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔
۵۔ کئی نسلیں گزرنے کے بعد ہمیں بالکل نئے شناختی نظریات اور ان سے منسلک گروہ بھی ابھرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قیام پاکستان سے آج تک ایسے فقط دو نظریات سامنے آئے ہیں۔ ایک 1970ء میں ابھرنے والا پاکستان پیپلز پارٹی کا گروہ جس نے’ نو مفلس‘ عوام کو شناخت مہیا کی اور دوسرا 2013ء میں نمایاں ہونے والا پاکستان تحریک انصاف کا گروہ جو نو تعلیم یافتہ لوگوں کو ایک نظریاتی شناخت سے جوڑتا ہے۔ کتاب کے متن میں ہم نے ان اصطلاحوں یعنی ’نومفلس‘ اور ’نوتعلیم یافتہ‘ کی تشریح کی ہے۔ جب ایسا کوئی نیا گروہ سامنے آ کر پہلے سے موجود نظام میں رخنہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پہلے سے موجود نظریاتی گروہ خود کو از سر نو ترتیب دیتے ہیں اور اپنی شناخت کو ایک نیا رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
کیا تنہا انتخابات حقیقی جمہوریت اور اچھی گورننس کا باعث بن سکتے ہیں؟
اس موضوع کو اس کتاب کے نظریاتی مباحث کا مرکز سمجھا جا سکتا ہے۔ ہمارے سماج کے اندر حکومت کا مجموعی کردار باب نمبر 5 میں زیر بحث آتا ہے۔ کسی سماج میں سیاسی اور انتظامی طاقت کہاں سے جنم لیتی ہے اور تقسیم کیسے ہوتی ہے؟ اس تقسیم کے لیے قواعد و ضوابط کس طرح تشکیل دیے جاتے ہیں؟ چنانچہ ایک آزاد ریاست کے سیاسی نظام کو درکار تین بنیادی ستون کتاب کے متن میں بیان کیے گئے ہیں۔
ہماری رائے میں کسی بھی سیاسی نظام میں طاقت کی تقسیم درج ذیل تین عوامل کے تحت عمل میں آتی ہے۔ اساسی(foundational)، عملی(instrumental) اور سیاقی (contextual) ۔ ہم ان تینوں عوامل کو اس لبرل جمہوری نظام کے تناظر میں پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو پیدا تو یوروپ میں ہوا تھا لیکن دنیا بھر میں ایک سیاسی نظام کے طور پر قبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس باب میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ جمہوری نظام اپنی جائے پیدائش اور بقیہ دنیا میں کن مسائل کو حل کرنے میں کامیاب رہتا ہے اور اسے خود کیا مسائل درپیش ہیں۔
مندرجہ بالا تین عوامل حسب ذیل ہیں: عوامی رائے یا(will of the people) کسی بھی جمہوری سیاسی نظام کا پہلا ستون ہے۔ اس کے بعد ایک موثر انتظامیہ (effective government)درکار ہے جو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے قوت کے استعمال کے ذریعے اس عوامی رائے کو عملی جامہ پہنا سکے۔ چنانچہ سماجی طبقوں کا اتفاق رائے (social consensus)اس سیاسی نظام کا تیسرا اہم ستون ہے جو اس بات کو یقینی بناتاہے کہ عوامی امنگیں اور ان پر عملدرآمد مجموعی طور پر سماج کے لیے قابل قبول ہو۔ کسی بھی عوامی سیاسی نظام کے لیے درکار مندرجہ بالا تین عوامل کی نشاندہی کرنے کے بعد ہم یورپ اور امریکہ میں دو صدیوں سے رائج کامیاب جمہوری نظام کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم چند ایسے غیر معمولی انتظامی و تاریخی عوامل کی نشاندہی کرتے ہیں جو ہماری رائے میں مغربی جمہوری نظام کی کامیابی کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل ثابت ہوئے تھے۔
مغربی جمہوری نظام میں کارفرما عوامل کی نشاندہی کرنے کے بعد ہم دو سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اول، کیا یہ مغربی جمہوری نظام مغربی یوروپ اور شمالی امریکہ کے علاوہ باقی دنیا میں کامیابی سے لاگو ہو سکا یا نہیں؟ دوم، وہ کیا وجوہات ہیں جن کے باعث یوروپی جمہوری نظام کو اپنی جائے پیدائش کے باہر خال خال ہی کہیں کامیاب ہوا ہے؟ ہم نے باب نمبر 5میں ان سوالوں کا مختصراً جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان کی انتخابی تاریخ کے گزشتہ پچاس سالوں کا احاطہ کرنے کے بعد ہم حال اور مستقبل کا رُخ کرتے ہیں۔ بوقت تحریر پاکستان میں بارہویں (12th) قومی انتخاب کی تیاریاں جاری ہیں۔ چنانچہ پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران سے متعلق سات مشاہدات کو بیان کرتے ہوئے کتاب اختتام پذیر ہوتی ہے۔
